- Get link
- X
- Other Apps
- Get link
- X
- Other Apps
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران گذشتہ ماہ چین کے سب سے رئیس شخص نے ٹوئٹر پر اپنا اکاوٴنٹ کھولا۔ تب سے لے کر اب تک ان کی ہر پوسٹ چین اور دنیا کے ہر ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے طبی امداد کے بارے میں ہے۔
جیک ما نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’ایک دنیا، ایک جنگ, تو وہیں دوسرے میں وہ لکھتے ہیں ,ہم ساتھ مل کر اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔‘
چین کے اس ارب پتی کی کوششوں کے نتیجے میں اس وقت دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کو ادویات اور طبی سامان بھیجا جا رہا ہے جس میں چہرے کے ماسک اور وینٹیلیٹرز بھی شامل ہیں۔
تاہم جیک ما کے متعدد حامی اور بہت سے مخالفین بھی سر کھجا رہے ہیں کہ انھوں نے خود کو کس مشکل میں مبتلا کر لیا ہے۔
لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ اپنی ان سرگرمیوں کی وجہ سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نئے اور ہمدرد چہرے کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں یا انھیں پارٹیاپنے پروپیگینڈا کے لیے استعمال کر رہی ہے جن ممالک کی جیک ما مدد کر رہے ہیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ چین کے سفارتی تعلقات کو دھیان میں رکھتے ہوئے قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے اقدام سے اپنے ملک سمیت دنیا بھر میں ان کی بڑھتی شہرت سے پیدا ہونے والا حسد چین کے قدآور سیاستدانوں کو ان کے خلاف بھی کر سکتا ہے۔
جیک کی ہی طرح دیگر ٹیکنالوجی کاروباروں کے ارب پتی مالکین نے بھی کورونا وائرس کی وبا کے خاتمے کا عہد کیا ہے، جیسے ٹوئٹڑ کے جیک ڈورسی نے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور بل اینڈ لنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بھی بھاری رقم عطیہ کی ہے
’جیک ما یہی کام تو کرتے ہیں‘
کینڈِڈ نامی خدمت خلق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق دنیا بھر سے اس مقصد کے لیے امداد دینے والوں میں علی بابا گروپ کے مالک جیک ما کا 12واں نمبر ہے۔
لیکن اس فہرست میں وینٹیلیٹرز اور ماسک جیسی اہم چیزوں کا شمار نہیں کیا گیا ہے، جو بہت سے ممالک کے لیے اس وقت رقم سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
علی بابا نے ضروری اشیا دیگر ممالک میں بھیجنے کا سلسلہ مارچ میں شروع کیا تھا۔ ان کی کمپنی افریقہ، ایشیا، یورپ، لاطینی امریکہ اور یہاں تک کہ ایران، اسرائیل، روس اور امریکہ تک ضروری اشیا طیاروں کی مدد سے پہنچا رہی ہے
کورونا وائرس سے متعلق ضروری تحقیق اور چین کے سنکیانگ صوبے سے طبی عملے کے نسخوں کا 16 زبانوں میں ترجمہ کروا کر ان ممالک کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ لیکن ما کی جانب سے بھیجی جانے والی طبی اشیا سب سے زیادہ سرخیوں میں ہیں۔
ما کی سوانح حیات لکھنے والے ڈنکن کلارک کہتے ہیں کہ ’ان کے پاس پیسہ ہے اور چین کے علاقے ہانگزو سے سامان کو فضائی طیاروں کے ذریعے کہیں بھی پہنچانے کی طاقت ہے۔’
انھوں نے کہا ’سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا، ما کی کمپنی اور ان کے ماتحت یہی کام تو کرتے ہیں۔’
چینی خارجہ پالیسی کی پیروی
ما کا ایک انگریزی کے استاد سے چین کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کے مالک بننے تک سفر غیر معمولی رہا ہے۔
ان کی کمپنی علی بابا کو ’مشرق کا ایمازان’ بھی کہا جاتا ہے۔ ما نے اس کمپنی کا آغاز 1999 میں چین کے شہر ہانگزو میں اپنے اپارٹمنٹ سے کیا تھا۔
وہ تب تھا۔ اب علی بابا کا شمار دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور ما 40 بلین ڈالر کے ساتھ چین کے سب سے رئیس شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
انھوں نے 2018 میں کمپنی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خدمت خلق پر توجہ دینا چاہتے ہیں لیکن کمپنی کے بورڈ میں ان کا مستقل مقام اب بھی برقرار ہے۔ اپنی دولت اور شہرت کے دم پر وہ اس وقت چین کے سب سے طاقتور شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے ما کی جانب سے کی جانے والی امدادی کارروائیاں کمیونسٹ پارٹی کی خواہشات کے مطابق کی جا رہی ہیں۔
اب تک جیک ما کی جانب سے امداد کسی ایسے ملک نہیں گئی جس کے چین کے سفارتی حریف ہم سایہ تائیوان سے تعلقات ہوں۔
ما نے ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ وہ لاطینی امریکہ کے 22 ممالک کو امداد بھیج رہے ہیں۔ تاہم وہ ممالک جو تائیوان کا ساتھ دیتے ہیں اور ہونڈورس جیسے ممالک سے امداد منگوا رہے ہیں وہ ان 185 ممالک میں شامل نہیں ہیں جنھیں جیک ما نے سامان بھیجی ہے۔
ان کی تنظیم مستقل ان ممالک کے نام واضح کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
لیکن سب ہی ممالک میں ما کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کامیابی کی وجہ سے ما کو ان دنوں پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور شہرت حاصل ہے۔
چینی میڈیا سمیت ملک کے رہنما شی جن پنگ کی نظریں بھی ما پر ٹکی ہیں اور ما کے ساتھ شی کا موازنہ صدر کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔
سوال اٹھ رہے ہیں کہ صدر نے کورونا وائرس کی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کیا کیا اور یہ وبا پھوٹی کیسے؟
کورونا وائرس سے بری طرح متاثرہ یورپی اور جنوب مشرقی ممالک کو چین کی حکومت کی جانب سے طبی عملے کے ساتھ امدادی اشیا بھی بھیجی گئی ہیں۔
تاہم ان کی ان کوششوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب متعدد ممالک نے کہا کہ چین سے بھیجا گیا سامان ان کے لیے ناقابلِ استعمال کیونکہ اس میں نقائص تھے۔ سامان کے معیار پر سوال اٹھے اور امدادی کارروائی الٹے چین کے گلے پڑ گئی۔
ما نے سب ہی افریقی ممالک کا سفر کرنے کا عہد کیا تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ مسلسل افریقہ کا سفر کرتے بھی رہے ہیں۔ ان کی جانب سے افریقہ بھیجی جانے والی امداد پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔
کیا جیک ما خطرہ مول لے رہے ہیں
یہ سوال بھی کھڑا ہو رہا ہے کہ کیا جیک ما بیجنگ کو ناراض کر رہے ہیں؟
چینی صدر کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیوں اپنے علاوہ کسی اور کو توجہ کا مرکز بنتے دیکھنا پسند نہیں ہے اور ماضی میں بھی مشہور چہرے ان کا ہدف بن چکے ہیں۔
حال ہی میں ملک کی بہترین اداکارہ سمیت ایک نیوز اینکر اور متعدد ارب پتی طویل عرصے کے لیے غائب ہو گئے تھے۔
ان میں سے نیوز اینکر سمیت چند جیل پہنچ گئے اور باقی جب حراست سے باہر آئے تو پارٹی کی حمایت کی قسمیں کھا رہے تھے۔
واشنگٹن میں سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ایشلی فینگ نے بتایا کہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ 2018 میں جیک ما کی ریٹائرمنٹ کے پیچھے بھی ان کی شہرت ہی تھی۔
ایک مقامی کاروباری شخصیت کی بڑھتی شہرت کے ملک میں صدر کی مقبولیت پر حاوی ہونے کا خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا۔
ما کے ریٹائرمنٹ کے اعلان نے سب ہی کو حیران کر دیا تھا تاہم وہ ایسے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں کہ ان پر حکومت کی جانب سے کوئی دباوٴ تھا۔
ما کی زندگی پر کتاب لکھنے والے ڈنکن کلارک نے بتایا کہ اس درمیان سنہ 2017 میں ما نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی۔
کلارک نے بتایا کہ ’ان دنوں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ جیک ما بہت تیزی سے آگے نکل گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت دونوں جانب سے اُس بارے میں سبق حاصل کیے گئے کہ مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ چلا جائے۔’
کلارک نے بتایا کہ چین کی حکومت پارٹی کے باہر کسی شخص کے ہاتھ میں طاقت دیکھ کر بھی بے چین ہو جاتی ہے۔
تکنیکی طور پر ما کمیونسٹ پارٹی کے لیے غیر نہیں ہیں۔ چین کا سب سے رئیس شخص سنہ 1980 میں یونیورسٹی کے دنوں سے کمیونسٹ پارٹی کا رکن رہا ہے۔
لیکن ما کا پارٹی کے ساتھ تعلق عجیب رہا ہے۔ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ما کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق اس معشوق کی طرح ہے جس سے وہ شادی نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن محبت کرتے ہیں۔
اگر ما اور اس سے منسلک تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے امدادی اقدامات حکومت سے پوچھے بغیر کیے گئے ہیں تو بھی حکومت ان سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
سیئیرا لیون سے لے کر کمبوڈیا تک جہاں کہیں بھی ما کی جانب سے سامان بھیجا جا رہا ہے وہاں چین کےسفیر ہوائی اڈوں پر بھیجی گئی اشیا کا استقبال کر رہے ہیں
ما کے امدادی اقدامات کا سہارا لے کر چین نے امریکہ پر بھی تعنہ کسا۔ اپریل ماہ کے آغاز میں چین کے وزارت خارتہ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’امریکہ کے وزارت خارجہ نے کہا کہ تائیوان ایک سچا دوست ہے اس نے بیس لاکھ ماسک کی امداد دی ہے۔
’کیا جیک ما کی جانب سے بھیجے جانے والے دس لاکھ ماسک اور پانچ لاکھ ٹیسٹنگ کٹس کے علاوہ چینی کمپنیوں اور صوبوں سے دی جانے والی مدد کے بارے میں امریکہ کو کچھ نہیں کہنا ہے؟’
ممکن ہے ما کے ساتھ پارٹی کا رویہ اوروں سے مختلف ہو۔ چین کو آخر ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر اپنی چھاپ چھوڑ سکے اور جیک ما ایسے شخص کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جس کا کوئی متبادل نا ہو۔
ایرک اولینڈر کہتے ہیں کہ افریقہ میں ما نے جو کچھ کیا اس سے ایک سبق سیکھنا چاہیے ’انھوں نے کہا کہ وہ کچھ کریں گے اور وہ ہو بھی گیا۔’
ایرک کا خیال ہے کہ ’یہ دیکھنے میں ایک بہت زبردست بات لگتی ہے خاص کر ایک ایسے علاقے کے لیے جہاں اکثر غیر ملکی آتے ہیں، وعدے کرتے ہیں اور انھیں نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
’کووڈ 19 کی وبا سے لڑنے کے لیے ان کا تعاون اس خاص پیٹرن میں فٹ ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کام کے لیے کہا کہ وہ کریں گے اور چند ہی ہفتوں میں مقامی ہیلتھ کیئر ورکرز کے پاس ماسک تھے۔’
ما نے ملک میں اور ملک کے باہر بڑے بڑے کاروباریوں اور طاقتور شخصیات سے دوستی کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
چینی حکومت کے لیے یہ بہت پسندیدہ بات تو نہیں لیکن موجودہ صورت حال میں ان کا ما کے خلاف ہونا بھی آسان نہیں ہے۔
ما اور ان کے جیسے دیگر کاروباری افراد کے امدادی اقدامات کی وجہ سے چین کو اپنی امیج بہتر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کینڈڈ کے اینڈرو گریبورس نے بتایا کہ چین سے ملنے والی امدادی رقم کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے۔
گریبورس کا خیال ہے کہ چین اس وقت وہ کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے جو کسی دور میں امریکہ کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’سب سے واضح رد عمل 2014 میں ایبولا کی وبا پھوٹنے پر سامنے آیا تھا۔ دیگر ممالک میں یہ وائرس پھیلنے سے پہلے ہی امریکہ نے مغربی افریقہ میں اپنے طبی عملے کو بھیج دیا تھا۔’
اب کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں چین یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ گریبورس نے کہا کہ چین اب اپنی سافٹ پاور کو اپنی سرحد کے باہر واضح کر رہا ہے، امداد کے ذریعہ، پیسوں اور ماہرین دونوں کی شکل میں۔
اس لیے یہ چین کی حکومت کے لیے ما کے راستے میں آنے کا صحیح وقت نہیں ہے۔
ڈنکن کلارک نے کہا کہ ’یہ وائرس اس وقت عالمی بحران کے طور پر سامنے ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ چین کے باقی دنیا سے تعلقات کے لیے بھی مشکل وقت ہے۔ اس وقت انھیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس دباوٴ کو کچھ کم کر سکے
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment