سہیل وڑائچ کا کالم, ترین تنگ آمد، بجنگ آمد

بلّی صدیوں سے انسان سے مانوس ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ بلّی انسان سے جنگ کرے یا اس پر حملہ آور ہو۔
مگر کئی بار دیکھا ہے کہ بلّی کو گھیر کر کونے میں لے جائیں اور اسے بھاگنے اور جان بچانے کا راستہ نہ دیں تو پالتو بلّی بھی کونے میں لے جانے والے پر حملہ آور ہو جاتی ہے، جھپٹتی ہے اور اپنی جان بچانے کے لیے انسان کو زخمی کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔
بلّی تنگ ہو تو جنگ کرتی ہے، انسان تو پھر انسان ہے۔
جہانگیر ترین کو اس وقت گھیر کر ایک کونے میں لے جایا جا رہا ہے۔ جہانگیر ترین اب ذہن بنا چکے ہیں کہ انھیں الزامات کے کونے اور دائرے سے نکلنا ہے اور اس کے لیے وہ طے کر چکے ہیں کہ سیاست میں دوبارہ متحرک ہوں گے۔ البتہ کب کیا کرنا ہے اس کا انتخاب وہ سوچ سمجھ کر کریں گے۔ فی الحال وہ دفاعی حملے کی تیاری میں ہیں۔
کہانیاں تو بہت ہیں کہ جہانگیر ترین اور عمران خان نیازی کے درمیان ایسا کیا ہوا کہ اتنا گہرا تعلق ٹوٹ گیا اور ایک دوسرے کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہو گئیںایک وقت تھا کہ سیاست، مقتدرہ حتی کہ نجی زندگی کے فیصلے بھی باہمی مشورے سے کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ ختم ہو گیا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان کی اپنی موجودہ اہلیہ بشری بی بی سے شادی سے شاید چند ماہ پہلے مانیکا خاندان کے دو افراد جہانگیر ترین سے ملے تھے۔
یہ دونوں افراد دراصل بشری وٹو کے دیور تھے اور پاکپتن کی سیاست میں بھی سر گرم تھے۔ انھوں نے جہانگیر ترین کو کہا کہ آج کل ان کی بھابھی بشری بیعمران خان کے پاس آتی جاتی ہیں اورعمران خان ان سے بہت متاثر ہیں مانیکا برادران نے جہانگیر ترین سے درخواست کی کہ عمران خان کو متنبہ کریں کہ وہ اُن سے دور رہیں۔
جہانگیر ترین نے عمران خان سے خود بات کرنے کی بجائے عون چودھری کو پیغام دیا کہ خان کو بتا دینا کہ مانیکا برادران نے یہ انتباہ بھیجا ہے۔ عون چودھری نے خان کو پیغام دیا تو جواباً عمران خان نے کہا کہ ترین کو کہو کہ وہ آئندہ مانیکا برادران سے نہ ملے، یہ اچھے لوگ نہیں۔ چنانچہ ترین اس کے بعد کبھی مانیکا برادران سے نہ ملے۔
جہانگیر ترین کی عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کے ساتھ پہلی اور آخری ملاقات اس وقت ہوئی جب عمران خان اور بشری وٹو کی شادی کے بعد پی ٹی آئی قیادت سے نئی بیگم صاحبہ کی سلام دعا ہو رہی تھی۔
ترین اور بیگم صاحبہ کی یہ پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی اور اس موقع پر ادا کیے گئے ایک طلسماتی فقرے کی تلخی کبھی دور نہ ہوئی۔
آٹا اور چینی کا سکینڈل میڈیا میں آیا تو جہانگیر ترین بیرون ملک تھے، واپس آ کر وہ فوراً وزیر اعظم سے ملے اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کی، وزیر اعظم نے آٹا سکینڈل سے ترین کی برات کا اعلان کر دیا لیکن چینی سکینڈل کے حوالے سے خاموش رہے۔
چینی پر ایف آئی اے کی رپورٹ باہر آئی تو وزیر اعظم اور ان کی کچن کابینہ کا ردعمل دیکھ کر ترین ششدر رہ گئے، انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں، آیا وہ بدنامی کے باوجود خاموش اور غیر سرگرم رہیں، وہ وزیر اعظم کے خلاف کھل کر بولیں اور سیاسی محاذ بنا لیں یا فی الحال مکمل رپورٹ کا انتظار کریں اور اپنی اس بدنامی کامقابلہ سیاسی طور پر کریں یوں لگتا ہے کہ جہانگیر ترین نے سوچ و بچار کے بعد تیسری آپشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وہ فی الحال عمران خان کے خلاف محاذ نہیں کھولنا چاہتے، لیکن بہت سے وزرا اور اراکینِ اسمبلی ان سے رابطہ کر کے اپنی حمایت کا یقین دلا رہے ہیں۔
فیصل آباد سے راجہ ریاض اور سوات سے مراد سعید تو اس حوالے سے کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے تین مشیر کھلے عام جہانگیر ترین سے ملے اور تصاویر اتروا کر میڈیا میں تشہیر کروائی۔
ہر روز کسی نہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے سے جہانگیر ترین کی ملاقات ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی خود بھی ترین کے مقابلے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ علیم خان کو صوبائی وزارت سے نوازنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ علیم خان اور جہانگیر ترین کے ممکنہ اتحاد کو روکا جا سکے۔
ترین کے قریبی حلقوں کو پوری طرح اندازہ ہے کہ ان کی آج حمایت کرنے والوں میں سے بہت کم ہیں جو حکومت کے مخالف کھڑے ہو سکیں گے۔ انھیں علم ہے کہ چند ایک وفادار ساتھیوں کے علاوہ باقی دراصل اپنی محرومیوں کی وجہ سے تحریک انصاف سے ناراض ہیں، ترین کیمپ کا تجزیہ یہ ہے کہ مناسب وقت بجٹ کے بعد ہو گا اسی وقت کوئیسیاسی سرگرمی نتیجہ خیز ہو سکتی ہےجہانگیر ترین کے قریبی حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ترین کو سائڈ لائن کر کے اسد عمر عملی طور پر نائب وزیر اعظم بن بیٹھے ہیں۔ ایکنک کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ اور کورونا کے سد باب کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ بھی وہ، یوں اس خلا کا سب سے بڑا سیاسی فائدہ اسد عمرنے اٹھایا ہے۔
جبکہ پرنسپل سیکریٹری کی کارکردگی اور کابینہ اراکین سے ناروا سلوک کے حوالے سے ترین اکثر وزیر اعظم کی توجہ دلایا کرتے تھے مگر اب پرنسپل سیکریٹری کو فری ہینڈ مل گیا ہے اور وہ اور بھی طاقتور ہو گئے ہیں۔
جہانگیر ترین کو علم ہے کہ وہ خود سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے نا اہل ہیں اس لیے سیاست میں ان کے متحرک ہونے کی محدود گنجائش ہے، دوسری طرف وہ بزنس مین ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ حکومت سے براہ راست ٹکر لیں۔
مگر ان کے مشیر کہتے ہیں کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بغاوت کی تو صرف ایک رکن اسمبلی مصطفیٰ کھر ان کے ساتھ تھے، آپ کے ساتھ تو سات ہیں اس لیے ہمت کریں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور ایک نیا سیاسی فرنٹ بنا کر عمران اور تحریک انصاف کا مقابلہ کریں۔ یہی وہ آپشن ہے جس سے آپ کی عزت اور سیاست بچ سکتی ہے۔
دیکھیں ترین اپنے کارڈز کب کھولتے ہیں، وہ پاور پالیٹکس کے ماہر ہیں پہلے اپنے پتے اچھی طرح لگائیں گے مقتدر حلقوں کی مرضی جانیں گے پھر ہی آگے بڑھیں گے   

Comments